دھرنہ۔۔۔ ورنہ

دھرنہ۔۔۔ ورنہ



راولپنڈی اسلام آباد کے سنگم پر براجمان دھرنے کو تین ہفتے ہونے کو آئے ہیں۔  راقم چونکہ دونوں شہروں کے درمیان تقریبا روزانہ کی بنیاد پر ہی سفر کرتا ہے ، یہ سفر گو کہ اردو کے سفر سے انگلش کے سفر میں تبدیل ہو چکا ہے، لیکن غم روزگار کے سلسلے میں اس سفر سے چھٹکارا  پاناممکن نہیں، اپنی تمام تر کوشش   اور جد و جہد کے باوجود گزشتہ تین ہفتے میں کم سے کم راولپنڈی اسلام آباد کے شہری حکومت نامی کسی شے  کو تلاش کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔




حکومت اگر کہیں ہے بھی تو سابق نا اہل وزیر اعظم  نواز شریف  کی لاڈیاں کرنے میں مصروف ہے، جی وہی وزیر اعظم  جو حضور یہ ہیں وہ ذرائع سے لیکر مجھے کیوں نکالا تک مسلسل ایک کے بعد ایک  شاندار لطیفہ تخلیق کرتے نظر آئے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے، یہ لطیفوں کا سلسلہ صرف سابق وزیر اعظم تک محدود نہیں بلکہ موجودہ وزرا بھی ان چٹکلوں میں اپنا  حصہ بقدر جثہ ڈالتے نظر آرہے ہیں،  وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق  جو  دھرنے کا ملبہ کبھی پیپلز پارٹی پر  ڈال رہے ہیں اور کبھی کسی اور اپوزیشن جماعت پر، لیکن وہ  اپنی ہی جماعت کے سربراہ کے داماد کی جانب سے دھرنے والوں کی حمایت اور دھرنے میں جا کے بیٹھنے جیسی معصوم خواہش سے بالکل ویسے ہی بے خبر نظر آتے ہیں جیسے نواز شریف مجھے کیوں نکالا کا سوال پوچھتے نظر آتے تھے۔  جی وہی داماد جو خود کو کبھی درویش کہتے ہیں اور کبھی ملنگ، گو کہ پندرہ سو ریال پر پلنے والے یہ درویش تاریخ درویشی میں اپنی نوعیت کے واحد فرد ہونگے ۔



خیر بات کرتے ہیں دھرنے کی تو شہریوں کی مشکلات تو اپنی جگہ موجود ہیں لیکن حکومت کی نا اہلی کا بھی کوئی جواب نہیں ، شہر اختیار راولپنڈی اور شہر اقتدار اسلام آباد کے درمیان سفر کرتے ہوئے  شہریو ں کو روزانہ کی بنیاد پر شدید مسائل کا سامنا ہے، اور ان مسائل میں اضافہ حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے ہو رہا ہے، جو سڑک ایک دن کھلی ملتی ہے وہ اگلے دن بند کر دی جاتی ہے، اور ٹریفک کو منظم کرنے کے لیے کیے جانے والے تمام اقدامات ابھی تک تو نا کافی ہی محسوس ہو رہے ہیں۔ بات کریں  دھرنے والوں کی تو وہ اپنی جگہ موجو د ہیں اور اپنے مطالبات پر قائم ہیں ، گو کہ یہ مطالبات وقت کے ساتھ نا صرف بدل رہے ہیں بلکہ حکومتی رویہ کے باعث مزید سخت ہوتے جا رہے ہیں ، جن پر عمل کرنا شاید اس حکومت کے لیے ممکن نا ہو لیکن  اس کا نتیجہ جڑواں شہرو ں کے باسیوں کو مزید کتنے دن برداشت کرنا پڑے اس بارے میں ابھی یقین سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، کوئی معجزہ ہی ہو کہ حکومت اور دھرنا کمیٹی میں تمام مسائل جلد ہونے کی کوئی امید نظر آجائے جس کا دور دور تک کوئی امکان تاحال تو ممکن نہیں۔



عدالت کی جانے سے دھرنہ ختم کرنے کے حکم پر دھرنے والو ں کی جانب سے  عدالت کے جج پر مسلکی بغص کا الزام لگایا جا رہا ہے جبکہ سابق وزیر اعظم بھی اپنا نیب کیس سننے والے جج اور سپریم کورٹ پر بغص کا مظاہرہ کرنے کا الزام لگاتے نظر آرہے ہیں۔ حکومت دھرنے والو ں سے عدالتی حکم پر تعمیل چاہ رہی ہے جبکہ اسی حکومت کے وزرا کی جانب سے سابق وزیر اعظم کی نا اہلی کے فیصلے کا روزانہ کی بنیاد پر ٹھٹہ اڑایا جا رہا ہے،  جس قسم کا غیر سنجیدہ رویہ حکومت کی جا نب سے دکھایا جا رہا ہے  اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو راولپنڈی اسلام آباد کے شہریوں کی مشکلات کا کوئی احساس نہیں۔ دوسری جانب دھرنے والوں کے مطالبات اگر قابل قبول بھی ہوتے تو جس قسم کی زبان ان کی جانب سے استعمال کی جا رہی ہے وہ کسی صورت قابل قبول نہیں، ایک ہی سانس میں آقائے دو جہان ص کا نام اور پر  مغلظات کا ایک نا تھمنے والا سلسہ اپنے آپ میں ہی  ایک قبیح عمل ہے ، اور ایسی بے ادبی کی جسارت کرنے والے کو یا تو اپنے دعوی عشق پر نظر ثانی کرنی چاہیے یا اپنے زبان سے ادا ہونے والے ان آلودہ ترین الفاظ پر۔

عشق کے ان دعوے داروں سے دست بستہ ایک سوال کرنے کی جرات کروں گا کہ بروز محشر وہ ان الفاظ کے ساتھ سرور عالم  کے سامنے پیش ہونے میں فخر محسوس کریں گے یا شرمندگی؟  اس سوال کے جواب میں ہی اس عشق کی روح  پنہاں ہے۔ ملک میں ایک طرف اسلام آباد دھرنہ کی گونج ہے جبکہ دوسری جانب ورنہ نے قیامت ڈھا رکھی ہے، کچھ لوگوں کے خیال میں حساس موضوعات کو اس طرح سے اٹھانے سے ملک کی  بدنامی ہوتی ہے ، ایسے موضوعات کو وسیع تر ملکی مفاد میں بالکل ویسے ہی دبا دینا چاہیے جیسے  ستر سال سے مختلف مواقع پر بنائی جانے والی کمیٹیوں کی رپورٹس کو دبایا جا  رہا ہے۔  اب ایسے محب الوطنوں کو کون سمجھائے کہ اگر  آپ ایک  بیماری کی تشخیص سے ہی انکاری ہیں تو اس کا علاج کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ کسی بھی مسلے کے حل کے لیے پہلے اس  کی موجودگی کا اقرار کرنا اس کے حل جتنا ہی ضروری ہے۔  امید کرتا ہوں   قوم کو دھرنہ اور ورنہ دونوں سے  جو سبق سیکھنے کو ملے وہ ہمارے ملک  اور معاشرے کے لیے بہتر ہو۔ سماء



EmoticonEmoticon